![]() |
ربڑ ------- از --------گل نوخیز اختر |
سکول جانے کا وقت ہوا تو ماں جی نے بڑے سے پیالے میں چائے ڈال کر اُس میں پراٹھے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ڈال کر میرے سامنے رکھ دیے۔یہ میرا پسندیدہ ناشتہ تھا لیکن میرا دماغ تو کسی اور طرف ہی الجھا ہوا تھا۔ابا جی پاس ہی کچی زمین پر بیٹھے اپنی ہوائی چپل کو ایک مزید ٹانکا لگا رہے تھے‘ اس ہوائی چپل پر اتنے ٹانکے لگ چکے تھے کہ اب نیا ٹانکالگانے کے لیے بھی کوئی جگہ نہیں بچی تھی لیکن ابا جی کو شائد اِسی سے عشق تھا لہذا ہر دوسرے روز اس کی ’’بخیہ گری‘‘ میں لگ جاتے تھے۔ مجھے یاد ہے ان کے پاس ایک خاکی رنگ کے پرانے سے بغیر تسموں کے بوٹ بھی تھے لیکن وہ بہت کم پہنتے تھے‘ لیکن مجھے وہ ہوائی چپل کی نسبت بوٹوں میں زیادہ اچھے لگتے تھے‘ لہذا کئی دفعہ فرمائش کرکے اُن کو زبردستی بوٹ پہنا دیا کرتا تھا‘ وہ کچھ دیر تک میری خواہش کے احترام میں بوٹ پہنے رکھتے‘ پھر یہ کہتے ہوئے اُتار دیتے کہ ’’یار۔۔۔ایہہ مینوں بہت چُبھدے نیں‘‘۔
میں نے کچھ دیراپنے خواب کے بارے میں سوچا ‘ پھر آہستہ سے کہا’’ابا جی! میں نے ربڑ لینا ہے‘‘۔ابا جی نے چونک کر میری طرف دیکھا ‘ پھر مسکراتے ہوئے میرے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور بولے’’تم تو ابھی تختی لکھتے ہو‘ ربڑ تو چوتھی جماعت کے بچے لیتے ہیں۔‘‘ میں نے پیالہ ایک طرف رکھا اور جھٹ سے ابا جی کی گود میں چڑھ گیا’’مجھے نہیں پتا۔۔۔میں نے ربڑ لینا ہے‘‘۔ ابا جی نے کن اکھیوں سے ماں جی کی طرف دیکھا جو رات کے بچی ہوئی روٹی پر تھوڑا سا گھی لگا کر اُسے دوبارہ زندہ کر رہی تھیں‘ ماں جی شائد ابا جی سے نظریں ملانے کی متحمل نہیں ہورہی تھیں اس لیے جلدی سے دھیان چولہے کی طرف لگا لیا۔میں پھر مچلا’’ابا جی میں نے ربڑ لینا ہے۔‘‘ میرا جملہ سن کر وہ زور سے ہنسے ‘ پھر میرے ماتھے پر بوسہ دیا اور بولے’’لے دوں گا‘ لیکن پہلے اچھی طرح ناشتہ کر‘‘۔یہ سنتے ہی میرے اندر پھلجڑیاں سی پھوٹ پڑیں‘ مجھے لگا جیسے میری لاٹری نکل آئی ہے‘ میں نے حکم کی تعمیل میں جلدی سے پیالہ ختم کیا اور داد طلب نظروں سے ابا جی کی طرف دیکھا۔ابا جی نے فخریہ انداز سے میرے کندھے تھپتھپائے اور بولے’’شاباش میراببر شیر پُتر‘‘۔یہ خطاب میرے لیے نیا نہیں تھا‘ ابا جی جب بھی مجھ سے خوش ہوتے تھے ایسے ہی کہتے تھے‘ لیکن اُس دن مجھے اِس خطاب کی نہیں‘ ایک ربڑ کی ضرورت تھی لہذا جلدی سے کہا’’ابا جی!اب ربڑ لینے چلیں؟‘‘ میرا جملہ سنتے ہی ابا جی کے چہرے پر ایک رنگ سا آکر گذر گیا لیکن انہوں نے فوری طور پر مسکراہٹ کا ازلی نقاب اوڑھ لیا اورحسبِ معمول میرے گال تھپتھپا کر بولے’’لے دوں گا یار‘ پہلے چوتھی جماعت میں تو آجاؤ ‘‘۔۔۔میری اُمیدوں پر پانی پھر گیا‘ وہ تو کہتے تھے کہ صبح کے وقت آنے والے خواب سچے ہوتے ہیں‘ پھر میرا خواب کیوں سچا ثابت نہیں ہورہا تھا؟ کیا میری صبح سچے خواب والی صبح نہیں تھی؟میں نے بے دلی سے بستہ اُٹھایا‘ تختی اور چادر سنبھالی اورڈھیلے قدموں کے ساتھ گھر سے نکل گیا۔
سکول پہنچا تو ’’جیرے‘‘ نے بتایا کہ وہ ربڑ لایا ہے‘ مجھے یقین نہ آیا اور میں نے صاف صاف کہہ دیا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو‘ اُس نے یہ سنتے ہی جھٹ سے اپنا بستہ کھولا اور ایک استعمال شدہ ربڑ میری آنکھوں کے آگے لہرا دیا۔‘ میں جل بھن گیا‘ جیرا بھی تو پکی جماعت میں تھا‘ پھر اُس کے ابا جی نے کیسے اُسے ربڑ لے دیا؟
میں نے اُس کے ہاتھو ں سے ربڑ لے کر الٹ پلٹ کر دیکھا‘ وہ واقعی ایک ربڑ تھا‘ اصلی ربڑ۔میری دلچسپی کو دیکھتے ہوئے جیرے نے جھٹ سے ایک کاغذ اور کچی پنسل نکالی‘ کاغذ پر کچھ آڑھی ترچھی لکیریں ڈالیں اور بڑے فخر سے ربڑ پکڑ کر اِنہیں مٹانے لگ گیا۔میں حیرت سے گنگ بیٹھاربڑ کو لکیروں پر پھرتے دیکھ رہا تھا‘ جہاں جہاں ربڑ پہنچ رہا تھا‘ لکیریں اپنا وجود کھوتی جارہی تھیں‘ کلاس کے اور لڑکے بھی ہمارے سروں پر جمع ہوچکے تھے اور حسرت بھری نظروں سے جیرے کے ربڑ کو دیکھ رہے تھے‘ جیرا بڑے اطمینان سے سیٹی بجاتے ہوئے ربڑکو لکیروں پر پھیر رہا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سارا کاغذ ایسے صاف ہوگیا جیسے کبھی اُس پر کچھ لکھا ہی نہ گیا ہو۔میری آنکھوں میں خون اُتر آیا‘ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ‘ جھٹ سے جیرے کا ربڑ چھینا اور دانتوں تلے دبا کر ریزہ ریزہ کر دیا۔جیرے کی ایک فلک شگاف چیخ بلند ہوئی اور کلاس میں جیسے طوفان سا آگیا‘ ربڑکے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے فرش پر بکھرے پڑے تھے اور جیرا دھاڑیں مار مار کر ربڑ کی لاش پر ماتم کر رہا تھا۔
Sign up here with your email
ConversionConversion EmoticonEmoticon